تحریر: مولانا گلزار جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی| مولا حضرت علی اصغر علیہ السلام دس رجب المرجب سن ساٹھ ہجری کو اس دار دنیا میں قدم زن ہوئے؛ حضرت ام رباب کی شاخ تمنا پہ جو کلی مسکرائی، اس نے حکیم کربلا کے لبوں پر تبسم بکھیر دیا؛ خاندان عصمت و طہارت میں شمع فرحت و سرور روشن ہو گئی۔ خرد و کلاں سبھی کے چہرے کھل گئے، زمین کربلا کو سب سے چھوٹا شہید مل گیا، دین اسلام کی ہیبت کی آبرو جس کے پلکوں پہ سجی تھی، وہ شہزادہ اپنی مسکراہٹ کے ساتھ اس دنیا میں قدم زن ہوتا ہے اور تقریبا ١٨ دن کے بعد یہ کاروان عصمت عازم سفر ہوتا ہے تو عظیم سانحہ کربلا کے لیے حکیم کربلا نے ١٨ دن کے صغیر و بے شیر کا بھی انتخاب کیا جسکی دلیل یہ ہیکہ کسی بھی ڈیپارٹمینٹ میں جب تک اس کے ورقہ پر مختصر مہر نہ ہو حکم قابل قبول نہیں ہے مہر ہوتی تو چھوٹی سی ہے مگر پورے ورقہ کا اعتبار ہوتی ہے شاید اسی لیے حسین ابن علی ع اپنے ساتھ حضرت علی اصغر علیہ السلام کو لیکر گئے تھے، تاکہ فہرست شھادت کی قبولیت کےلیے نام علی کی آخری مہر ضروری تھی اور کیونکہ مہر مختصر ہوتی ہے اس لیے علی اصغر کو سب سے آخر میں پیش کرکے حسین ع نے اپنے آپ کا امضاء فرمایا اور اس طرح فہرست شہادت کی قبولیت کی ضمانت حضرت باب الحوائج کے نحیف کاندھوں پر رکھی گئی۔
اہل دانش و بینش، اہل قلم و قرطاس، اہل شعور و احساس کے لیے لمحہ فکریہ ہے؛ کائنات میں کسی شخص کی اتنی مختصر حیات اور اتنے پر اثر اور پر اسرار اثرات نہ ہوں گے جیسے باب الحوائج حضرت علی اصغر (ع) کے ہیں زمانۂ انگشت بدنداں ہے عقل و خرد محو حیرت و استعجاب میں ہے، قلم فکر میں ارتعاش ہے ، شعور کی جھیلوں میں عجیب سی طغیانی ہے ، طائر تخیل فضاء عشق و شغف میں حد پرواز سے عاجز نظر آتا ہے ، خیالات کی وادی میں ایک عجیب سا سناٹا ہے، جب اک طفل صغیر ، شیر خوار کی حیات گرامی پر خامہ فرسائی کرے جس کی جبین اقدس پر حوصلوں کی شکن میں تحریر شکت ظلم و بربریت پڑھیں جا سکتی ہے، جسکی آنکھوں میں کامیابی و کامرانی کے چھلکتے ہویے جام میں چمک دیکھی جا سکتی ہے ، جسکے رخساروں کا گلابی پن اسلام کی رگوں میں دوڑتے ہوئے لہو کی روانی کا کنایہ ہے ، اس کے خشک زدہ ہونٹوں سے شریعت کی بالا دستی کا اظہاریہ ہے ، اسکے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کی ننھی ننھی انگلیوں کے جھروکوں سے جھانک کر غازہ اسلام کا حسن و جمال دیکھا جا سکتا ہے، اسکے بازوں کی قوت سے طاقت اسلام کا اندازہ لگایا جاسکتاہے، اسکے گلو مبارک کا پیکان شھادت کی شمع کا وہ استعارہ ہے جسے کسی دور کا حرملہ بجھا نہیں سکتا اس نے شمع شھادت میں اپنے گلو مبارک کا لہو بھر کر قیامت تک آنے والی نسلوں میں شوق شہادت کی امنگوں کو پروان چڑھا دیا اسکے لبوں کے تبسم نے شجر حیات کی جلوہ نمائی فرمائی۔
یہ پہلا موقع تھا جہاں موت کے ماتھے پر پسینہ تھا ، تیر سہ شعبہ اپنی طوالت کے بعد بھی بونا نظر آرہا تھا تیر انداز کی فن کاری و مکاری منھ کے بل زمیں دوز ہو رہی تھی ، شہادت کی باہوں میں باہیں ڈالے مسکراتے ہوئے شہزادے نے بشریت کے زاویہ ذہن میں عظمت شھادت، یقین حیات ابدی کا پیغام سنا دیا۔ سانحہ کربلا سے آشنا ہر باضمیر انسان اس شھادت کی ابدیت و سرمدیت اور لا زوال ہونے کو جانتا ہے جس کے لہو کے قطروں سے عصمت کے چہرے کی جلوہ نمائی ہو جس کی سرخی حکیم کربلا کو سر خرو کردے شب عاشور سے روز عاشور تک جو گہوارے میں شوق شہادت میں اپنے رہوار شعور کو مہمیز کرتا رہا ہے اور صحرای نینوا میں اپنے لہو کی دھار سے حریت کی عبارت لکھ کر اس خاک کو خاک شفا بنا دیتا ہے پھر یہ خاک افلاک و ابراج، آسمانوں کے سات حجابوں کے دامن کو چاک کردیتی ہے، رجب کے عشرہ سے محرم کے عاشورہ تک حیات میں نہ چلنے والے کے نقش کف پا آج بھی معرفت کی درسگاہ میں رمز حیات بنے ہوئے ہیں۔
لبوں کی خاموشی نے تکلم کے دریا بہا دئیے؛ حسن و نظر کی دولت نے ہدایت کے چشمہ فیض کرم کو جاری کردیا ایڑیاں رگڑی مگر زمزم کا چشمہ نہ پھٹا عطش شہادت کی شمع روشن کر گئی عمل داخل سعی تو نہ ہوسکا مگر سعی اس احساس کے بغیر قرطاس عمل پر مقبول نہیں لکھی جا سکتی۔
زمزم کی بزم عبادت کا ارتقاء اپنی جگہ ہے مگر میدان نینوا کی شہادت کی معراج اپنی جگہ ہے جبین شوق پر تیر سہ شعبہ سے شہادت کی عبارت لبوں پر تبسم کا امضاء دلیل ہے، کربلا رمز شہادت ہے اور علی اصغر علیہ السّلام کی مختصر حیات کے پر اسرار اثرات اہل فکرو نظر کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔
رب کریم ہمیں سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
تمام موالیان حیدر کرار کو ولادت باسعادت حضرت علی اصغر علیہ السلام بہت بہت مبارک ہو!
آپ کا تبصرہ